Header Ads

Header ADS

💕حضرت دانیال کا خواب💕


💕حضرت دانیال کا خواب💕
تحریر: سید ذوالکفل
یہودیوں کے بابل کے اسیری کے زمانے میں حضرت دانیال کا ظہور ہوا- جو اپنے علم و حکمت کی بنا پر شاہان بابل کے دربار میں مقرب ہو گئے تھے-جبکہ اگر تورات کی تعلیمات تسلیم کی جائیں تو سائرس سے لیکر آرٹازرکیسز(ارتخششت)اول تک تمام شہنشاہان پارس بنی اسرائیل سے عقیدت رکھتے تھے-شاہ بابل کے تیسرے برس انہوں نے خواب دیکھا جو کتاب دانیال میں ہے "میں دیکھتا ہوں کہ ندی کے کنارے مینڈھا کھڑا ہے- جس کے دو سینگ اونچے ہیں-لیکن ایک دوسرے سے زیادہ اونچا تھااور بڑا دوسرے کے پیچھے تھا- میں نے دیکھا کہ پچھم اترا اوردکھن کی طرف سینگ مارتا ہے -یہاں تک کہ کوئی جانور اس کے سامنے کھڑا نہ رہ سکا-اور وہ بہت بڑا ہو گیا- یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہپچھم کی طرف سے ایک بکرا آکر تمام روئے زمین پر پھر گیا-اس بکرے کے آگے عجیب طرح کا سینگ تھا-وہ دو سینگوں والے مینڈھے پر خوب بھڑکااسکے دونوں سینگ توڑ ڈالے اور اس کی ہمت نہ تھی کہ مقابلہ کرے" پھر اس کے بعد ہے کہ جبریل آئے اوربتایا کہ دو سینگوں والا مینڈھا فارس کی بادشاہت ہے اور بکرا یونان کی اس کا سینگ اس کا پہلا بادشاہ ہے- چنانچہ یہ بادشاہ بعد میں سکندر مقدونی ٹھرا-جبکہ دو سینگ میڈیا اور فارس کی سلطنتیں تھیں-چنانچہ یہودیوں کے یہاں فارس کے بادشاہ کے لیے ذوالقرنین کا تصورپیدا ہو گیا تھا-یہ صرف یہودی تخیل نہ تھا بلکہ خود فارس کے بادشاہ کا مجوزہ اور پسندیدہ نام ذوالقرنین تھا-یہ سائرس کا سنگی تمثال ہے جو پاسارگاد (تخت سلیمان-ایران) کے کھنڈروں میں ١٨٣٨ء کے انکشاف کے بعد دستیاب ہوا-دوسری علامت بڑی حد تک اس پر چسپاں ہوتی ہے، مگر پوری طرح نہیں۔ اس کی فتوحات بلاشبہ مغرب میں ایشیائے کوچک اور شام کے سواحل تک اور مشرق میں باختر (بلخ) تک وسیع ہوئیں، مگر شمال یا جنوب میں اس کی کسی بڑی مہم کا سراغ ابھی تک تاریخ سے نہیں ملا ہے، حالانکہ قرآن صراحت کے ساتھ ایک تیسری مہم کا بھی ذکر کرتا ہے، تاہم اس مہم کا پیش آنا بعید از قیاس نہیں ہے، کیونکہ تاریخ کی رو سے خورس (کورش) کی سلطنت شمال میں کاکیشیا (قفقاز) تک وسیع تھی۔ 
تیسری علامت کے بارے میں یہ تو قریب قریب متحقق ہے کہ یاجوج و ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ  قبائل ہیں جو تاتاری منگولی، ھُن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے حملوں سے بچنے کے لیے قفقاز کے جنوبی علاقے میں دربند اور دار بال کے استحکامات تعمیر کیے گئے تھے۔ لیکن یہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ خورس (کورش) ہی نے یہ استحکامات تعمیر کیے تھے۔ 
آخری علامت قدیم زمانے کے معروف فاتحوں میں اگر کسی پر چسپاں کی جا سکتی ہے تو وہ خورس (کورش) ہی ہے۔ کیونکہ اس کے دشمنوں تک نے اس کے عدل کی تعریف کی ہے اور بائبل کی کتاب عزْرا اس بات پر شاہد ہے کہ وہ ضرور ایک خدا پرست اور خدا ترس بادشاہ تھا جس نے بنی اسرائیل کو ان کی خدا پرستی ہی کی بنا پر بابل کی اسیری سے رہا کیا اور اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کے  لیے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا حکم دیا۔ اس بنا پر ہم یہ تو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ نزول قرآن سے پہلے جتنے مشہور فاتحین عالم گزرے ہیں ان میں سے خورس (کورش) ہی کے اندر ’’ذو القرنین‘‘ کی علامات زیادہ پائی جاتی ہیں، لیکن تعین کے ساتھ اسی کو ذو القرنین قرار دے دینے کے لیے ابھی مزید شہادتوں کی ضرورت ہے۔ تا ہم دوسرا کوئی فاتح قرآن کی بتائی ہوئی علامات کا اتنا بھی مصداق نہیں ہے جتنا خورس (کورش) ہے۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.