Hazrat Abdullah Bin Mubarak rehmat ullah alahe
💕حضرت عبداللہ بن مبارک رحمتہ اللہ علیہ کی حسرت💕
تحریر سید ذوالکفل
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمتہ اللہ علیہ اپنی جوانی میں زن جمیل پر فریفتہ تھے۔ ایک رات اس نے کہا کہ میرے گھر کے باہر انتظار کرنا میں ملاقات کیلئے آؤں گی۔ آپ سردی کی لمبی رات میں جاگتے رہے‘ ٹھٹھرتے رہے اور انتظار کرتے رہے۔ وہ عورت وعدہ کے مطابق ملنے آئی۔ جب صبح کی اذان ہوئی تو آپ کے دل پر چوٹ پڑی۔ آپ نے سوچا کہ میں ایک حسینہ کی خاطر ساری رات جاگتا رہا اور مجھے حسرت و افسوس کے سواکچھ نہ ملا۔ کاش کہ میں اللہ تعالیٰ کی یاد میں ساری رات جاگتا مجھے رحمت
میں سے ضرور حصہ نصیب ہوتا۔ آپ نے سچی توبہ کی‘ علم حاصل کیا اور ذکر و صحبت کے مراحل سے گزر کر بالآخر امیرالمومنین فی الحدیث بنے۔ تاثیر ذکر پر بو علی سینا کا اشکال واجہ ابوالحسن خرقانی ہمارے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے بزرگ تھے۔ ایک مرتتبہ وہ اسم اعظم کے فضائل سنا رہے تھے۔ اس وقت کا مشہور فلسفی اور حکیم بو علی سینا بھی وہاں پہنچ گیا آپ فرما رہے تھے کہ اسم ذات سے انسان کی صحت میں برکت انسان کے عمل میں برکت‘ انسان کے رزق میں برکت اور انسان کی عزت میں برکت ہوتی ہے‘ عقلی بندے توعقلی ہی ہوتے ہیں لہٰذا اس بیچارے کی عقل بھی پھنس رہی۔ چنانچہ محفل کے اختتام پر اس نے حضرت سے پوچھا کہ جی اس ایک لفظ کا ذکر کرنے سے اتنی تبدیلیاں آ جاتی ہیں۔ آپ نے فرمایا: اے خر! توچہ دانی! یعنی اے گدھے تجھے کیا پتہ‘ اب جب مشہور آدمی کو بھرے مجمع کے سامنے گدھا کہا گیا تو اس کے پسینے چھوٹ گئے۔ حضرت بھی نباض تھے۔ لہٰذا انہوں نے اس کے چہرے پر پسینہ اترتے ہوئے دیکھا تو پوچھا حکیم صاحب! پسینہ آ رہا ہے وہ کہنے لگا حضرت! کیا کروں‘ آپ نے بھرے مجمع میں لفظ ہی ایسا کہہ دیا ہے حضرت نے فرمایا حکیم صاحب! میں نے بھرے مجمع میں ایک لفظ گدھا کہا اور اس کی وجہ سے تمہارے تن بدن میں تبدیلیاں آ گئیں‘ کیا اللہ کے لفظ میں اتنی تاثیر نہیں کہ وہ بندے کے دل میں تبدیلی پیدا کر دے۔
کوئی تبصرے نہیں