Header Ads

Header ADS

سچے اسلامی واقعات اور سبق آموزحقیقی کہانی💕 ایڈمن سید ذوالکفل Real story about a innocent person


💕سچی اسلامی واقعات اور سبق آموزحقیقی کہانی💕

ایڈمن سید ذوالکفل
ایک ایسے انسان کے مختلف واقعات ہیں جس کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں 

فرضی نام عبداللہ
عبداللہ پاکستان کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق ہے اور اس کے والد موحد انسان تھے اور اسے دین سے ایسی رغبت پیدا ہوئی کہ بہت سے جید علماء سے ملنا  بھی ہوا اور ان سے مستفید بھی ہوتا رہا اور دینی کتب کا رسیا بن گیا

دل کا بہت اچھا انسان (اللہ تعالی راقم الحروف کوغلو سے محفوظ رکھے) دوسروں کی فکر رکھنے والا

پھر نکاح ہوگیا اور بیوی بھی ایسی ملی کہ وہ بھی کھلے دل والی اور باپردہ ،شروع کے ایام تھے اور عبداللہ کی اہلیہ اسکے مزاج سے زیادہ واقف نہیں تھی 

اب کبھی کچھ اللہ کے راستہ میں دینا ہوتا تو اہلیہ اس سے پوچھتی کہ وہ فلاں مسجد ، مدرسہ یا کسی حاجت مند کو کچھ دینا ہے تو کتنے دوں ؟ 

اور اسکا جواب ہوتا میرے رب نے میری " اوقات " سے بڑھ کر مجھے دیا ہے اور دے رہا ہے،اس مالک نے کبھی گن کر مجھے نہیں دئیے تو تجھے بھی حساب لگا کر دینے کی کوئی خاص ضرورت نہیں جب پاس میں ہیں توجتنے دل میں آئے اس سے زیادہ دو اور دیکھنا اللہ رب العزت اس سے کئی گناہ زیادہ دے گا اور  ہم اس کیلئے دینگے وہ مزید عطا کرے گا اور مال روک کر رکھنے والے سے وہ بھی روک لیتا ہے

ایک دن عبداللہ کے ایک خاص دوست سے  اسکی بات چیت ہوئی اور وہ بھی دین دار تھا تو حال احوال جاننے کیلئے دونوں کی بات چیت ہوئی پھر عبداللہ کے اصرار  پر دوست نے بتایا کہ جمع پونجی خرچ ہوچکی ہے اور ایک کاروبار شروع کیا ہے لیکن کچھ خاص رقم پاس میں نہیں بس اس کیلئے تھوڑا پریشان ہوں.عبداللہ کے پوچھنے پر بتایا کہ 50 ہزار کی ضرورت درپیش ہے فی الحال ،عبداللہ  نے اسے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں اللہ خیر کرے گا آپ بس اللہ تعالی سے دعا  کرو اور پھر چند باتوں کے بعد ایک دوسرے کو الوداعی کلمات کہہ کر رابطہ منقطع ہوگیا

عبداللہ نے اپنی اہلیہ کو صورت حال  بتائی اور کہا کہ میرے دوست کو اس وقت رقم کی ضرورت ہے اور میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ اسکو قرض کی صورت میں دوں اور نہ ہی ایسا کچھ کرنا چاہتا ہوں کہ دوست میرے احسان تلے دب  جائے،اہلیہ نے اس سے کہا جو آپکو مناسب لگتا ہے وہ کریں

عبداللہ نے دوسرے دن اپنے دوست کو  بنک کے ذریعہ رقم منتقل کی اور کہا کہ بھائی میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں کہ آپ کے دو بچے ہوئے لیکن میں نے انکے لیے کوئی ہدیہ نہیں بھیجا اور کل اہلیہ سے بات کررہا تھا تو مجھے اس نے یاد دلایا

اب ایسا ہے کہ 30 ہزار بیٹی کیلئے (جو کہ 6 برس کی ہے) اور 20 ہزار بیٹے کیلئے (جو کہ 4 برس کا ہے) چچا اور چچی کی  طرف سے اور ساتھ میں تاخیر سے ہدیہ دینے پر بہت بہت معذرت 

بھائی میں آپکو کوئی قرضہ نہیں دے رہا بس یہ رقم فی الحال اپنے کاروبار میں لگا لیں پھر آہستہ آہستہ منافع میں سے رقم الگ کرتے جانا اور بیٹی اور بیٹے کو  انکا ہدیہ دے دینا، دوست نے جواب میں کہا کہ میں اب کیا کہوں ؟ بھائی میں یہی کہتا ہوں اللہ تعالی آپکو بے انتہا رزق حلال عطا فرمائے

عبداللہ کی اہلیہ کی ایک کزن کا خاوند  کافی پریشان حال تھا اور وہ کسی عرب ملک میں روزگار کیلئے جانا چاہتا تھا لیکن خرچ آڑے آجاتا ،اب یہ کزن گہری سہیلی بھی تھی تو اس سہیلی نے باتوں باتوں میں تذکرہ کیا تو اہلیہ نے عبداللہ سے ذکر کیا 

عبداللہ نے اہلیہ سے کہا کہ دیکھو اگر  پاس میں مطلوبہ رقم ہے تو دے دو اور وہ بھی "قرض حسنہ" کی صورت میں اور رقم کی واپسی کا خیال دل سے نکال دینا یعنی دے کر بھول جانا وہ لوٹادیں تو ٹھیک وگرنہ مطالبہ کرنے کی ضرورت نہیں.
اب سہیلی کے شوہر نے تگ و دود کرنا شروع کی اور اسکو ویزا مل گیا اور سہیلی نے ڈیڑھ لاکھ کی رقم قرض کیلئے مانگی جو کہ عبداللہ نے اپنی اہلیہ  کے ذریعہ سے رقم کی ترسیل کروادی اور اس بات کو برس بیت گیا اور سہیلی کے شوہر نے کبھی بھول کر بھی عبداللہ کو فون نہیں کیا

ایک دن عبداللہ کو مقامی مسجد کے امام  صاحب نے بتایا کہ ہم نے اسلامی سکول کھولا ہے اور اس میں مدد کی ضرورت رہتی ہے جیسا کہ ایک صاحب اپنی دو بچیاں لائے داخل کروانے کیلئے لیکن وہ 2 بچیوں کی 400 ڈالر ماہانہ فیس ادا نہیں کرسکتے صرف 300 ڈالر دے سکتے ہیں تو عبداللہ نے مولانا سے کہا آپ انہیں  کہیں کہ آپ کیلئے خصوصی ریاعت ہے آپ 300 ہی ادا کریں اور مولانا 100ڈالر ماہانہ میری طرف سے اس بیٹی کیلئے لیکن شرط یہ ہے کہ انکو اس بات کی کبھی خبر نہ ہونے پائے اور یہ سلسلہ دوبرس سے زائد عرصہ سے چل رہا ہے 

ایسا بھی نہیں ہے کہ عبداللہ کوئی  کارباری یا لکھ پتی انسان ہے بلکہ ملازمت پیشہ ہے اورایک معقول تنخواہ ہے اسکی لیکن اس کے باجود اپنی اسطاعت کے مطابق اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہتا ہے اور اس کے قرابت دار بھی اس کے ایسے اعمال کو تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.